جموں و کشمیر کے آزاد خطے میں قائم ہونے والی پہلی حکومت کے ساتھ ہی یہاں نظریات کی جگہ اقتدار کی سیاست نے پنجے گاڑنا شروع کر دئیے تھے لیکن تحریک آزادی کے چراغ بھی ابھی پوری آب و تاب سے روشن تھے اور نظریاتی سیاست دوسری تمام مصلحتوں پر غالب تھی- تاہم 1965ء کی جنگ کے بعد ہونے والے پاک بھارت معاہدوں سے جو مایوسی اور بددلی پیدا ہوئی اس کے نتیجے میں اقتدار کی سیاست رفتہ رفتہ زور پکڑنے لگی- چنانچہ 25 جولائی 2021ء کو آزاد کشمیر اسمبلی کے انتخابات میں تحریک انصاف نے اکثریت حاصل کی تو حکومت سازی کیلئے پہلے سے قائم کم از کم دوپریشر گروپ ایک دوسرے سے آگے نکلنے کیلئے سرگرم ہو گئے لیکن وزیر اعظم عمران خان نے اپنی تحقیق کی بنا پر جب ایک ایسے شخص کو وزیر اعظم نامزد کر دیا جو نسبتا کم معروف سیاسی گھرانے سے تعلق رکھتا تھا تحریک آزادی میں جس کی قربانیاں زباں زد خاص و عام تھیں جس کا منشور سیاسی اقتدار سے زیادہ غریب عوام کی خدمت تھا- (مزید پڑھئیے )
پہلے مقبوضہ کشمیر میں قائد حریت سید علی گیلانی دنیا سے رخصت ہوئے تو اس کے ایک ماہ دس دن بعد آزادکشمیر کے لیاقت علی خان سردار سکندر حیات نے قوم کو سوگوار چھوڑکر دارفانی سے عالم جاودانی کی طرف کوچ کیا- سردار سکندر حیات خان اس بطل حریت کے چشم وچراغ تھے جس نے جموں وکشمیر کے مسلمانوں کو غلامی سے نجات دلانے کے لئے صرف دلوں میں کڑھنے کی بجائے ڈوگرہ راج کے خلاف عملی بغاوت کی راہ دکھائی پھر دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف اللہ اکبر اور آزادی کے نعرے گونجنے لگے اور ایک عظیم تر تحریک قائد کشمیر چوہدری غلام عباس اور شیخ محمد عبداللہ کی قیادت میں کل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کی صورت میں منصہ شہود پر آئی- چوہدری غلام عباس اور شیخ عبداللہ (شیخ صاحب بعد میں بھارت کی گود میں چلے گئے) کا مقام اپنی جگہ مگر وہ سردار کریلوی سے جونیئر تھے جنہوں نے ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا کرتے ہوئے ان دونوں کا بھرپور ساتھ دیا اور جموں وکشمیر کے طول و عرض میں ڈوگرہ مہاراجہ اور اس کے متعصب ہندو اہلکاروں کے ظلم وجبر کے ستائے ہوئے مسلمانوں میں بیداری کی لہر دوڑا دی- (مزید پڑھئیے )
آزادجموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی کی اگلے پانچ سال کے لئے انتخابی مہم جگت بازی اور گالم گلوچ کے آخری مرحلے میں داخل ہوگئی ہے- ایک دور ایسا تھا جب کل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس لبریشن لیگ آزادمسلم کانفرنس جموں وکشمیر محاذ رائے شماری وغیرہ جیسی خالص کشمیری تشخص کی حامل سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے مد مقابل ہوتیں- جماعت اسلامی کو بھی حصہ بقدر جثہ مل سکتا ہے آزادکشمیر کے بانی صدر غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان کے پوتے اور موجودہ رکن اسمبلی حسن ابراہیم آزادجموں وکشمیر پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے امیدوار ہیں ان کا مقابلہ اصلی تے وڈی پیپلزپارٹی کے امیدوار سابق صدر اور سابق وزیراعظم سردار محمد یعقوب خان سے ہے- (مزید پڑھئیے )
یہ کالم یہ تعزیت نامہ میں اس شخص کے لئے لکھ رہا ہوں جو حب الہی اور عشق رسول سے سرشار درویشانہ زندگی گزارنے والا بے مثل استاد شفیق معلم بلند پایہ مفکر بیدارمغز محقق صاحب اسلوب ادیب حق گو شاعر ژرف نگاہ کالم نگار علوم دینیہ پر عبور رکھنے والا مستند عالم محب وطن پاکستانی اور سب سے بڑھ کر ایک دردمند انسان تھا- عالمگیر وبا کورونا وائرس نے جو عذاب الہی بن کر مشرق ومغرب پر ٹوٹی کئی نامور ہستیوں کی قیمتی جانیں لے لیں- گو کہ تھیں اعمال میں کوتاہیاں شاہق بہت لیکن اس کی چشم تر میں تھا جمال مصطفے (کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)- (مزید پڑھئیے )
بی این پی مینگل نے پی ٹی آئی اتحاد سے علیحدگی کا اعلان کر دیا یہ بھی کہا گیا تھا کہ افغان مہاجرین جن کی وجہ سے صوبے میں بعض سیاسی اقتصادی اورسماجی مسائل پیدا ہورہے ہیں کی باعزت افغانستان واپسی کابندوبست کیاجائے گا- اختر مینگل اس پر صبر کرکے بیٹھنے والے نہیں تھے انہوں نے پارٹی کی سنٹرل ورکنگ کمیٹی کے متفقہ فیصلے پرمخلوط حکومت کی حمایت ترک کرنے کااعلان کردیا- سردار اختر مینگل نے 8 سال پہلے بلوچستان کے مسائل حل کرانے کیلئے 6 نکاتی مطالبات پیش کئے تھے جنہیں شیخ مجیب کے 6نکات کے مماثل نہایت خطرناک قرار دے کر ملکی اورغیر ملکی میڈیا میں بہت اچھالاگیا تھا- (مزید پڑھئیے )
مراسلات پاکستان تحریک انصاف کی مخلوط وفاقی حکومت کے مستقبل پر بلوچستان نیشنل پارٹی بی این پی مینگلکی علیحدگی سے کوئی فرق پڑے نہ پڑے بلوچستان میں اس کاضرور منفی پیغام جائے گا جس سے وہاں کے عوام میں پہلے سے موجود احساس محرومی مزید گہرا ہوجائے گا اور اس کا فائدہ ان عناصر کو پہنچے گا جو غیر ملکی ہاتھوں میں کھیلتے ہوئے قومی یکجہتی کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں- سرداراخترمینگل نے قومی اسمبلی میںحکمران اتحاد سے علیحدگی کاباضابطہ اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ ان کےاحتجاج پر تمام پارٹیوں پرمشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے بلوچستان جاکر یہ دیکھنا تھا کہ وہاں کے مسائل کیاہیں اورانہیں حل نہ کرنے کے ذمہ دار کون ہیں- اس اعتبار سے حکمران اتحاد سے بی این پی کی علیحدگی ایسا معاملہ نہیں جسے نظر انداز کیا جائے اس لئے ملک کے سب سے بڑے صوبے کو ناامید کرنے کے بجائے وہاں کے سلگتے ہوئے مسائل پر فوری توجہ دی جانی چاہئے اور بی این پی مینگل سمیت تمام سیاسی پارٹیوں کو آن بورڈ لے کر فوری فیصلے اور اقدامات کرنے چاہئیں- (مزید پڑھئیے )
ای میل کریں وزیراعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنے انتخابی منشور میں دوبارہ برسر اقتدار آکر بھارتی آئین کی دفعات 35اے اور 370منسوخ کرنےکا وعدہ کرکے اس کام کا بیڑہ اٹھایا ہے جو ان کے پیشرو شدید ترین خواہش کے باوجود عشروں کی سازشوں، کشمیری عوام پر بہیمانہ مظالم اور پاکستان کے ساتھ خونی جنگوں کے باوجود نہ کر سکے (مزید پڑھئیے )
ای میل کریں مقبوضہ کشمیر میں کسی کا یہ قول زبان زد عام ہے کہ ’’بھارت کو کشمیر چاہئے، کشمیری نہیں‘‘ (مزید پڑھئیے )
سری نگر ہو یا بارہ مولا، کپواڑہ ہو یا سوپور، پلواما ہو یا ہندواڑہ، بڈگام ہو یا پہلگام، راجوری ہو یا کوئی اور مقام، ہر جگہ آزادی کے نعرے گونج رہے ہیں، ہر طرح کے مہلک ہتھیاروں سے مسلح 8لاکھ کے قریب بھارتی فوج حریت پسندوں کی تلاش میں گھر گھر چھاپے مار رہی ہے، چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کر رہی ہے، انسانی حقوق کی دھجیاں اڑا رہی ہے، نہتے کشمیری گھروں اور گلی کوچوں سے روزانہ اپنے بچوں کی لاشیں اٹھا رہے ہیں، کوئی کسی کا بیٹا ہے تو کوئی بھائی، کوئی باپ ہے تو کوئی شوہر، بھارتی درندے مارتے مارتے تھک جاتے ہیں مگر وادی کے جانباز بیٹے اپنی دھرتی ماں کے قدموں میں اپنا لہو گراتے نہیں تھکتے (مزید پڑھئیے )